Ticker

6/recent/ticker-posts

Advertise

Ahmed Ben Bella Heroes of Algerian Independence | Biography


         Click Here

احمد بن بیلا,AHMED BEN BELLA

الجرائز کی آزادی کے ہیرو.

شمالی افریقہ کے اہم اسلامی ملک الجزائر کو سامراجی قوتوں سے آزادی دلوا کر عوامی جمہوریہ الجزائر کے نام ایک عظیم مملکت کا تشخص دینے والے قائد کا نام احمد بن بیلا Ahmed Ben Bellaہے۔ الجزائر جو رقبہ کے اعتبار سے بحر روم پر واقع براعظم افریقہ میں سوڈان کے بعد دوسرا بڑا اور دنیا کا گیا رواں ملک ہے پر 1830ء میں فرانسیسی حکومت نے قبضہ کر لیا اور 1962ءتک الجزائر کے مسلمانوں کو زیر تسلط رکھا۔ الجزائر کے مسلمانوں نے فرانسیسی تسلط سے آزادی کے لئے جدوجہد میں ناقابل بیان ظلم و بربریت کا سامنا کیا اور بے شمار انسانی جانوں کی قربانی پیش کی۔        

الجزائر پر فرانس   ۔

                             الجزائر پر فرانس      کے 132سال کے جبری تسلط کے دوران لا تعداد فرانسیسی خاندان الجزائر میں جا کر آباد ہو گئے اور انہوں نے الجزار کو اپنا مستقل مسکن تصور کر لیا بلکہ الجزائر کو اپنے الگ نام سے پکارنے کی بجائے فرانسیسیوں نے اس ملک کو فرانسیسی الجزار کا نام دے دیا۔ فرانسیسی ہر قیمت پر الجزائر کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے جبر و تشدد کی تمام حدیں پار کر لیں مگر الجزائر کے مسلمانوں نے احمد بن بیلا کی قیادت میں آگ اور خون کے دریا عبور

Ahmed Ben Bella Heroes of Algerian Independence | Biography
Ahmed Ben Bella Heroes of Algerian Independence | Biography
کرکے بالآخر آزادی کی منزل حاصل کر لی۔ 1954ء سے 1962ء کے دوران لڑی جانے والی اس آزادی کی جنگ میں ایک لاکھ سے زائد الجزائری حریت پسند اور دس ہزار سے زائد فرانسیسی فوری اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔

احمد بن بیلا 25 دسمبر 1918ء کو الجزائر کے ایک چھوٹے سے گاؤں اگنیا (Maghnia) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے لئے وہ اپنے علاقے کےایک سکول میں داخل ہوئے لیکن تعلیم کےدوران انہیں مسلمان ہونے کے ناطے ایک عیسائی استاد کے تعصب کا شکار ہونا پڑا اور انہیں سکول سے نکال دیا گیا۔ 1936ء میں احمد بن بیلا نے فرانسیسی فوج میں بطور رضا کار شمولیت اختیار کر لی لیکن غلام ملک کے شہری ہونے کے ناطے فوج میں احمد بن بیلا کے لئے ترقی کے راستے مسدود تھے۔ احمدبن بیلا کے بڑےبھائی نے بھی فرانسیسی فوج میں خدمات سرانجام دیں اور پہلی جنگ عظیم میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ احمد بن بیلا کے دیگر دو بھائی بھی جواں عمری میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ 1940ء کے بعد احمد بن بیلا نے مراکش انفینٹری Moroccan Infantiry کی ایک رجمنٹ میں شمولیت اختیار کر لی جہاں انہیں وارنٹ آفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اپنی بہترین خدمات پر انہیں تمغہ جرات سے بھی نوازا گیا۔

فرانسیسی فوج کے ناروا سلوک۔

1945ء میں الجزائر کے مسلمانوں کے ساتھ فرانسیسی فوج کے ناروا سلوک کے باعث انہوں نے ملازمت سے استعفی دےدیا اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک خفیہ تنظیم کے رکن بن گئے ۔ جو بعدازاں نیشنل لبریشن فرنٹ کے نام سے منظر عام پر آ گئی۔ 1951ء میں احمد بن بیلاکو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں آٹھ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ احمد بن بیلا جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور پہلے تیونس اور بعدازاں مصرچلے گئے ۔ مصر میں قیام کے دوران انہیں انقلابی لیڈر جمال عبدالناصر سے قربت کا موقع ملا۔ 1954ء میں الجزائر کی جنگ آزادی کا جب باضابطہ آغاز ہوا اس وقت احمد بن بیلا مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود تھے۔

مگر وہ (Revolutionary Committee of Unity and Action) کے 9ممبران میں سے ایک تھے جو نیشنل لبریشن فرنٹ کے ذریعے جنگ آزادی کی قیادت کر رہے تھے ۔ 1956ء میں انہیں ایک فضائی سفر کے دوران فرانسیسی جہازوں کی مدد سے زبردستی فرانس اتار کر گرفتار کر لیا گیا اور 1962ءتک پابند سلاسل رکھا گیا۔ دوران اسیری ہی انہیں الجزائر کی آزادعبوری حکومت کا نائب وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ احمد بن بیلا نے اپنی قید کے دوران عربی زبان سیکھ لی۔ احمد بن بیلا کو اگر چیہ فرانسیسی زبان پر عبور حاصل تھا مگر اپنے ملک پر ناجائز طور پر مسلط فرانسیسی حکمرانوں سے نفرت کے باعث انہوں نے فرانسیسی کی بجائے عربی زبان اپنائی بلکہ اپنی بیٹی کو بھی فرانسیسی کی بجائے عربی زبان میں تعلیم دلوائی۔ احمد بن  بیلا مصر کے صدر جمال عبد الناصر سے بے حد متاثر تھے اور اپنے آپ کو ان کا پیرو کار کہتے تھے۔ الجزائر سے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد بھی وہ صدر ناصر کے زبردست حامیوں اور مداحوں میں سے ایک تھے جس کے باعث انہیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔


 پاکستان کی حمایت۔

الجزائر کی آزادی کی جدوجہد میں احمد بن بیلا کوحکومت پاکستان کی زبردست حمایت حاصل رہی اور پاکستان کی طرف سے انہیں غیرملکی سفر کی سہولت کے لئے ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کیا گیا 1980ء میں بھی الجزائر سے جلاوطنی کے وقت انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ہی سفر کیا۔

1962ء میں الجزائر کی آزادی کے اعلان پر احمد بن بیلا کی شہرت اسمان کو چھونے لگی اور ان کی عوامی حمایت میں زبردست اضافہ ہو گیا اور فوج میں بھی انہیں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوگئی۔

ستمبر 1962ء تک احمد بن بیلا نے الجزائر کے تمام علاقوں پر عملا کنٹرول حاصل کر لیا اور 20 ستمبر 1962ء کو ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے وزیراعظم بن گئے۔ 29 ستمبر 1962ء کو اقوام متحدہ نے احمد بن بیلا کو الجزائر کا منتخب حکمران تسلیم کر لیا اور الجزائر کو بطور آزادمملکت کے 8 اکتوبر 1962 کو اقوام متحدہ کا109 واں رکن بنالیا۔

Imran Khan profile and Biography, stats, records, averages in urdu  

بلامقابلہ صدر منتخب ۔

1963ء میں احمد بن بیلا الجزائر کے بلامقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ احمد بن بیلا نے الجزائر کو ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور دفاعی لحاظ سے طاقتور ملک بنانے کے لئے مختصر وقت میں متعدد انقلابی اصلاحات متعارف کروائیں۔ 19 جون 1965ء کو احمد بن بیلا کو ان کے اپنے بنائے ہوئے وزیر دفاع اور دیرینہ ساتھی حواري بومدین جنہیں سوشلسٹ نیشنلسٹس اور فوج کی حمایت حاصل تھی نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے عہدہ صدارت سے برطرف کر کے قید کر دیا۔ احمد بن بیلا پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ملک میں آمریت کر رکھی تھی اور وہ اندرون ملک اہم معاملات پرتوجہ دینے کی بجائے خارجہ امور میں مگن رہتے تھے۔ حواری بومدين 1978ء تک الجزائر کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور احمد بن بیلا مسلسل زیر حراست رہے۔ 1978ء میں حواری بومد ین اگر چہ وفات پا گئے مگر احمد بن بیلا کو رہائی 1980ءسے پہلے نصیب نہ ہوسکی۔

احمد بن بیلا کو اپنی انقلابی جدوجہد پر سویت یونین کی حکومت نے 30 اپریل 1964ء کو Hero of the Soviet Union کا ایوارڈ دیا۔

1980ء میں رہائی کے بعد احمد بن بلا بیلا سوئٹزر لینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑی جو 10 سال پرمحیط تھی تا ہم 1990ء میں انہیں واپس اپنے وطن آنے کی اجازت مل گئی۔

احمد بن بیلا کو قائرہ کانفرنس میں عراق پر جارحیت کے خلاف بین الاقوامی مہم کا صدر منتخب کرلیا گیا اور وہ ماضی قریب تک وہ افریقن یونین پینل کے صدر بھی رہے۔

احمد بن بیلا اپنی زندگی کے اختتام تک سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے رہے۔ وہ الجزائر میں مروجہ یک جماعتی نظام کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ وہ اپنے ملک میں مکمل جمہوریت دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ اگر چہ احمد بن بیلا کی شخصیت اور افکار کے بارے میں بہت سے لوگ متضاد خیالات رکھتے ہیں مگر پوری دنیا میں انہیں نوآبادیاتی اور سامراجی نظام کے خلاف عظیم جدوجہد کرنے والے ہیرو کے طور پرتحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور عرب دنیا میں احمد بن بیلا کو ایک پر جوش اور حقیقی عرب قوم پرست کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

 

You have to wait 30 seconds.


فروری 2012ء میں احمد بن بیلا کو میڈیکل چیک اپ کے لئے ہسپتال داخل کروایا گیا۔ اس دوران پورے ملک میں افواہ پھیل گئی کہ احمد بن بیلا اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں تاہم ان کے خاندان نے ان کی وفات کی تردید کردی۔

11 اپریل 2012 احمد بن بیلا الجزائر میں واقع اپنے آبائی گھر میں وفات پا گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 94 برس تھی۔ 12 اپریل کو بن بیلا کا جسد خاکی دیدار عام کے لئے رکھا گیا جبکہ 13اپریل کو ان کی باضابطہ تدفین کر دی گئی۔ الجزائر کی حکومت نے احمد بن بیلا کی قومی خدمات کے اعتراف میں ان کی وفات پر قومی سطح پر آٹھ روزہ سوگ کا اعلان کیا۔

Kim Kardashian | Biography, Children, & Facts | In Urdu/Hindi

Post a Comment

0 Comments

close